Unveiling the Enigmatic Tale: People of Sabt Turned into Monkeys
The story of the People of Sabt, a narrative deeply ingrained within Islamic tradition, beckons our attention with its mysterious twists and profound lessons. Rooted in the Quranic teachings, this account narrates the consequences of disobedience and divine justice through the transformation of a community into monkeys. Drawing insights from various sources, including Quranic verses and scholarly interpretations, we delve into the layers of this thought-provoking story.
Hazrat Dawood: An Icon of Faith and Kingship
Before we delve into the story, let’s explore the life of Hazrat Dawood (David), a revered figure in Islamic tradition. Known for his deep faith, resilience, and exemplary kingship, Dawood’s legacy resonates through time. From his triumph over Goliath to his supplications recorded in the Psalms, his life is a testament to unwavering devotion and divine favor.
The Story of Dawood in Islam: A Glimpse of Challenges and Miracles
Dawood’s life is marked by significant events and miracles, including his appointment as a prophet and a king. His wisdom, coupled with the ability to communicate with birds and understand their language, underscores the miracles that attested to his prophethood. His story is a tapestry of trials, triumphs, and unwavering faith in the face of adversity.
The Cow Incident in Surah Al-Baqarah: Symbolism and Lessons
Before venturing into the transformation of the People of Sabt, it’s essential to understand the cow incident mentioned in Surah Al-Baqarah. This incident, laden with symbolic significance, paves the way for understanding the broader narrative. The Quranic stories are interwoven, each offering a unique lesson that contributes to the tapestry of guidance.
حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم نے ایسی کون سی نافرمانیاں کی جن کی وجہ سے ان پر عذاب نازل ہوا
حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم بندر اور خنزیر کیسے بنی اس قوم نے ایسی کون سی نافرمانی کی تھی کہ اللہ نے انہیں انسان سے بندر اور خنزیر بنا دیا
جالوت کا واقعہ
ظالم و جابر بادشاہ جالوت کی فوج کے مقابلے میں بنی اسرائیل کے بادشاہ حضرت طالوت کے لشکر میں ایک کم عمر نوجوان بھی اپنی غلیل کے ساتھ شامل تھا کیونکہ نو عمر ہونے کی وجہ سے اسے اسلحہ نہیں دیا گیا تھا جالوت اپنے جسم کو سامان حرف سے سجائے نہایت تکبر سے شاہی سواری پر بیٹھا اہل ایمان کو جنگ کی دعوت دے رہا تھا ابھی بنی اسرائیل کا یہ چھوٹا سا لشکر کوئی فیصلہ بھی نہیں کر پایا تھا کہ اچانک ان کی صفوں میں موجود یہ کم عمر نوجوان تیز رفتاری سے باہر نکلا اور جالوت کے سامنے پہنچ کر اسے للکارنے لگا طویل القامت جالوت نے حیرت کے ساتھ نوجوان کو دیکھا تو حقارت سے بولا کہ جا میری انکھوں کے سامنے سے دور ہو جا میں تجھے قتل کرنا پسند نہیں کرتا بے نوجوان نے بادشاہ کی انکھوں میں انکھیں ڈال کے گرج دار آواز میں جواب دیا لیکن تجھے قتل کرنا مجھے پسند ہے پھر فلک پر چمکتے سورج کی تیز روشنی میں عرض و سامان ایک حیرت انگیز منظر دیکھا نوجوان کے خلیل سے گولی کی طرح نکلے پتھر سے جالوت کا متکبر سر پاش پاش ہو چکا تھا اور اس کا طاقتور جسم زمین پر اوندھے منہ پڑا تھا یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ جالوت کی فوج اسلحے کو سنبھلنے کا موقع تک نہ ملا
اور وہ بدحواس ہو کر بھاگ کھڑی یہ نوجوان ایک چرواہا تھا جو سارا دن جنگل میں بکریاں چرایا کرتا کو ہلاک کرنے والے اس کم سن بچے کا نام حضرت داؤد علیہ السلام ہیں جن کے بارے میں قران پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ داؤد نے جالوت کو قتل کر ڈالا اور اللہ نے ان کو بادشاہی اور دانائی بخشی اور جن جن چیزوں کا چاہا انہیں علم عطا کیا حضرت داؤد علیہ السلام 965 قبل از مسیح میں فلسطین میں پیدا ہوئے آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تھے محمد بن اسحاق رضی اللہ تعالی عنہ حضرت وہب بن منبہ کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام جسم پر بال بہت کام تھے چہرے سے پاکیزگی جھلکتی تھی نہایت ہمدر قوی بہادر اور لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ حکمرانی اور فیصلہ کرنے کی قوت تحفہ خداوندی تھی انبیاء کرام میں حضرت آدم علیہ السلام کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام ہی وہ پیغمبر ہیں جنہیں قران کریم نے خلیفہ کے لقب سے نوازا ہے قران کریم میں ارشاد ربانی ہے اے داؤد ہم نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنا دیا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو حضرت داؤد علیہ السلام پر اللہ تعالی نے اپنی الہامی کتاب زبور نازل کی جس کا قران کریم کی سورہ بنی اسرائیل میں کچھ اس طرح سے تذکرہ ملتا ہے اور ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر فضیلت بخش مفسرین کے مطابق زبور کے نزول کا مقصد تورات کی تھا اور غلیل سے بکریوں کے قریب آنے والے درندوں کو مار لگاتا لیکن قدرت نے اس کے لیے بڑے فیصلے کر رکھے تھے اللہ تعالی نے پہلے اسے بنی اسرائیل کا بادشاہ بنایا اور پھر اسے نبوت اور رسالت کے عظیم منصب پر فائز فرمایا ایک ہی وار سے جالوت تکمیل تھا اس لیے یہ تورات ہی کا ایک حصہ یہ ٹکڑا ہے زبور میں اللہ تبارک و تعالی کی حمد و ثنا سے ہے
حضرت داؤد علیہ السلام کے معجزات
حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالی نے دل نشین اور سیر انگیز تحفہ عطا فرمایا تھا آپ علیہ السلام جب زبور کی تلاوت فرماتے تو تلاوت سے مشہور ہو گئے چرند پرند درخت پہاڑ جن و انس دریا اور سمندر یعنی سب اللہ تعالی کی حمد و ثنا میں مہو ہو جاتے مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ داؤد علیہ السلام پر قران کو آسان اور ہلکا کر دیا گیا تھا وہ اپنے گھوڑے پر سین کسنے کا حکم فرماتے اور اس سے پہلے کہ سین کسی جاتی آپ پوری زبور تلاوت کر چکے ہوتے مفسرین کے مطابق اللہ تعالی نے پہاڑوں پرندوں اور جانوروں کو حکم دیا تھا کہ جب حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کا ذکر کریں تو وہ سب بھی ان کلمات کو دہرائیں جب وہ زبور کی تلاوت کرتے تو پرندے بھی ہوا میں ٹھہر کر ان کے ساتھ ذکر الہی میں شامل ہو جاتے اسی طرح پہاڑ شجر اور دیگر جانور بھی ان کے ساتھ اللہ تعالی کی تسبیح کرتے اللہ رب العزت نے پتھروں اور درختوں میں بھی ایک طرح کی زندگی رکھی یہ الگ بات ہے کہ ہمیں اس کا شعور نہیں سورہ بنی اسرائیل میں ہے شجر اور دیگر جانور بھی ان کے ساتھ اللہ تعالی کی تسبیح کرتے ہیں اللہ رب العزت نے پتھروں اور درختوں میں بھی ایک طرح کی زندگی رکھی ہے یہ الگ بات ہے کہ ہمیں اس کا شعور نہیں سورہ بنی اسرائیل میں ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین اور جو بھی ان میں ہے وہ سب اسی کی تسبیح کر رہے ہیں ایسی کوئی چیز نہیں جو اسے پاکیزگی اور تعریف کے ساتھ یاد نہ کرتی ہواللہ تبارک و تعالی نے حضرت داؤد علیہ السلام کو دوسرا معجزہ یہ عطا فرمایا کہ لوہے کو ان کے لیے موم کی طرح نرم فرما دیا ارشاد باری ہے اور ان کے لیے ہم نے لوہے کو نرم کر دیا کہ کشادہ زریں بناؤ نیک عمل کرو
حضرت حسن بصری اور قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے لوہے کو نرم کر دیا حتی کہ بغیر آگ اور بھٹی کے اپنے ہاتھ کے ساتھ اسے ہر طرح سے موڑ لیا کرتے تھے انہیں لوہا موڑنے کے لیے ہتھوڑے کی ضرورت پڑتی اور نہ کسی دوسرے اوزار کے وہ موم کی طرح ہاتھ سے اس کی کڑیاں بنا لیا کرتے تھے حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے شخص جنہوں نے کڑیوں کی انتہائی محفوظ ذرہ بنائی وہ حضرت داؤد علیہ السلام اس سے پہلے صاف چادر کی زیریں بنتی تھی ابن شوزب فرماتے ہیں کہ آپ علیہ السلام دن میں ایک ذرہ بنا لیا کرتے تھے جو 600 درہم میں فروخت ہوتی تھی اللہ تعالی نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نبوت اور رسالت کے ساتھ حکومت بھی عطا فرمائی آپ علیہ السلام فن خطابت کے ماہر تھے جبکہ آواز بھی خوبصورت پائی تھی لہذا درس و تبلیغ اور وعظ و نصیحت کے ذریعے بنی اسرائیل میں جذبہ جہاد ابھارا اور انہیں کفار و مشرکین کے ساتھ جنگ پر امادہ کیا بہت تھوڑے عرصے میں فلسطین عراق شام دمشق اردن اور فرات تک جزیرۃ العرب کے بیشتر علاقے ان کے قبضے میں آ چکے تھے
اللہ تعالی کا عذاب
ان کی قوم کی نافرمانیوں کی وجہ سے بنی اسرائیل پر عذاب آیا اور یہ نافرمان قوم بندر اور خنزیر بن گئی کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم بندر کیوں بنی اور انہوں نے ایسی کون سی نافرمانی کی تھی کہ انہیں اتنی بڑی سزا دی گئی اس حوالے سے قران کریم میں ارشاد ہوتا ہے اور تم ان لوگوں کو خوب جانتے ہو جو تم میں سے ہفتے کے دن مچھلی کا شکار کرنے میں حد سے تجاوز کر گئے تھے تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل و خوار بندر ہو جاؤ یہ واقعہ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں پیش آیا بنی اسرائیل کے لیے ہفتے کا دن صرف عبادت کے لیے مخصوص تھا اور اس دن مچھلی کے شکار سمیت ہر دنیاوی کام ممنون تھا لیکن سمندر کے کنارے آباد مچھلی کے شوقین ان لوگوں نے حکم کی نافرمانی کی جس پر اللہ تعالی نے ان کی شکلوں کو مسخ کر دیا اور پھر تین دن بعد وہ سب لوگ مر گئے یہود نے شروع میں تو حیلے بہانے بنا کر مچھلیاں پکڑی پھر عام طور پر شکار کھیلنے لگے تو ان میں دو جماعتیں ہو گئی ایک جماعت میں تھے جو انہیں اس کام سے روکتے تھے جبکہ دوسری جماعت نافرمان افراد پر مشتمل تھی پھر بستی کے بھی دو حصے کر دیے گئے اور ان کے باہمی تعلقات منقطع ہو گئے ایک روز محسوس ہوا کہ جس حصے میں نافرمان رہتے تھے وہاں بالکل سناٹا ہے جب وہاں جا کر دیکھا گیا تو وہاں رہنے والوں کی صورتیں بگڑ چکی تھی حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ان کو جوان بندر اور خنزیر بنا دیا گیا تھا اپنے رشتہ دار انسانوں کو پہچانتے تھے اور ان کے قریب آ کر روتے تھے
Bani Israel: Trials and Divine Guidance
The People of Sabt belong to Bani Israel, a community chosen for various tests and lessons. The broader narrative of Bani Israel showcases their journey of trials, guidance, and choices. Their experiences resonate with believers, offering insights into the dynamics of faith, accountability, and the consequences of decisions.
The Enigma of Ashab Al Sabt: A Tale of Disobedience and Transformation
The People of Sabt were entrusted with the command to observe the Sabbath, a day of rest and devotion. However, some among them transgressed this commandment by deceitfully engaging in fishing on the Sabbath. This disobedience resulted in a divine punishment that transformed them into monkeys, a metaphorical reminder of the consequences of straying from divine directives.
Divine Justice and Lessons Learned
The transformation of the People of Sabt serves as a profound lesson about the intricacies of divine justice and accountability. The narrative underscores the importance of obedience and sincerity in faith, highlighting the perils of attempting to circumvent divine instructions. The story’s essence lies not only in its historical context but also in its universal message.
Exploring Quranic Wisdom and Reflections
The Quran’s wisdom transcends time and space, offering guidance and reflections for believers across generations. It addresses questions about human evolution, the consequences of disobedience, and the significance of adhering to divine teachings. The story of the People of Sabt is a fragment of the Quranic tapestry, woven with intricate details that impart profound lessons.
Conclusion: A Tale of Consequences and Redemption
The story of the People of Sabt remains an enigma that invites contemplation on obedience, consequences, and the depths of divine wisdom. Embedded within the broader narrative of Bani Israel, it serves as a reminder of the complexities of faith and the enduring lessons that shape our spiritual journey. The transformation into monkeys serves as a timeless metaphor for the consequences of straying from the path of righteousness.