The Remarkable Adaptations of Snailfish: Surviving the Abyssal Depths of the Ocean

Advertisements

The Remarkable Adaptations of Snailfish: Surviving the Abyssal Depths of the Ocean

 

In the mysterious and inhospitable world of the ocean’s deepest depths, a creature known as the snailfish thrives against all odds. These extraordinary fish have evolved remarkable adaptations that enable them to not only survive but flourish in the extreme conditions of the abyssal zone. Let’s explore the fascinating ways snailfish have conquered the challenges of the deep.

Advertisements

Withstanding Crushing Pressure

The abyssal depths of the ocean can exert crushing pressure that far exceeds what humans can endure. Snailfish have evolved unique adaptations to handle this immense pressure. Their bodies are highly flexible, lacking rigid bones, which allows them to withstand the weight of the water above. Their soft, gelatinous bodies are designed to minimize the effects of pressure while maintaining their ability to move and hunt for prey.

Utilizing Limited Resources

Food is scarce in the abyssal zone, where sunlight doesn’t penetrate, and the ecosystems are dependent on the “marine snow” that drifts down from above. Snailfish have adapted to survive on this sparse diet, which includes detritus, smaller organisms, and occasional marine life that sinks from shallower waters. Their slow metabolism allows them to make the most of these infrequent meals.

Advertisements

Extreme Cold Tolerance

The abyssal zone is characterized by frigid temperatures that hover just above freezing. Snailfish have adapted to these cold waters by having a reduced metabolic rate and the ability to thrive in low temperatures. Their circulatory systems are designed to distribute oxygen efficiently even in colder conditions, ensuring they can maintain their activity levels despite the cold environment.

 

سائنسدانوں نے ایک مچھلی کی پانی کے اندر 8 کلومیٹر سے زیادہ تیرنے کی فوٹیج حاصل کی ہے، جس نے اب تک کی سب سے گہری مچھلی کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے

 

سمرین تو سمندر میں 4 ہزار میٹر کی گہرائی میں پڑی تھی لیکن یہ سنیل فریش وہ سمندری کریچر ہے جس کو 8300 میٹر کی گہرائی میں بھی کچھ نہیں ہوتا یہ قدرتی طور پہ دنیا کا سب سے مضبوط کریچر مانا جاتا ہے پھر چاہے اس کے اوپر ہاتھیوں کا جھنڈ کھڑا کر دیا جائے اس کے اوپر سے بھاری ٹرکس گزار دیے اس کی باڈی ٹس سے مس نہیں ہوگی مریانہ ٹرینج سمندر کے باٹم پر چاند کی شکل جیسا ایک بہت بڑا کروڈ ڈینٹ ہے جس کی لمبائی 250 کلومیٹر اور چوڑائی 900 کلومیٹرز ہیں اس لینڈ کی وجہ سے سمندر کا یہ حصہ اچانک سے بہت ڈیپ ہو جاتا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے اس کو گوگل ارتھ پر بھی دیکھا جا سکتا ہے اس ٹرینج میں ہماری دنیا کا سب سے گہرا پوائنٹ سمندری لہروں سے بھی 11 ہزار 33 میٹرز یا پھر 36200 فٹ نیچے موجود ہیں

یہ گہرائی اوشن کی سب سے کم ایکسپلور کی جانے والی گہرائی ہے جس کو ہیڈل زون بھی کہا جاتا ہے اس کا یہ نام گریک انڈر ورلڈ گاڈ لیڈیز کے نام پہ رکھا گیا تھا اس گہرائی میں خطرناک اندھیرا کھانے کی کمی اور ہڈیوں کو توڑ دینے والا پریشر اس بات کی صاف صاف نشانی ہے کہ یہاں جانداروں کا زندہ رہنا قریب نا ممکن ہے پہلے تو یہ بھی سمجھا جاتا تھا کہ ہیڈل زون تک انسان کبھی نہیں جا پائے گا لیکن 19ویں صدی میں ایک واقعہ ہوا جس نے اس کانسپٹ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا 1875 میں ایچ ایم ایس چیلنجر نامی شپ سمندر میں موجود تھی اس میں اس وقت کے اوشن ایکسپلورز ڈیپسٹ پوائنٹ تلاش کرنے نکلے تھے ایک جگہ پر آ کر انہوں نے رسی پر وزن لٹکا کر اس کو سمندر میں پھینکا یہ نوٹس کیا گیا کہ رسی نیچے جاتی جا رہی ہے لیکن ڈی پیسٹ پوائنٹ ابھی تک نہیں آیا ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ ان کی رسی سمندر کے باٹم پر پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو گئی اس خبر نے پوری دنیا کے اوشن ایکسپلورز کو حیرت زدہ چھوڑ دیا

مریانہ ٹرینچ اوشن کا سب سے گہرا پوائنٹ تھا یہ جاننا ہی صرف کافی نہیں تھا یہاں تک پہنچنے کے لیے کئی بار کوششیں کی گئیں لیکن یہ گہرائی کسی کو اپنے قریب بھی آنے نہیں دیتی تھی چیلنجر ڈیپ کی ڈسکوری کے 85 سالوں کے بعد 1960 میں دو لوگوں نے یہاں تک جانے کی ہمت کی چیک بگاڑ اور نیوی لیوٹننٹ ٹاؤن واچ یہ کارنامہ انہوں نے ٹریسٹ نامی سب مرسل میں بیٹھ کر انجام دیا ان کا یہ پانچ گھنٹوں کا سفر ڈھیر سارے چیلنجز سے بھرا ہوا تھا پانچ گھنٹے صرف جانے کے اور بقایا پانچ گھنٹے واپس اوپر آنے کے اس گہرائی میں پانی کا پریشر زیادہ ہوتا ہے ان کے سفر کے دوران سپرین کی کھڑکی کا شیشہ کریک ہو گیا تھا ان کو واپس اوپر آنا ہی پڑا بے شک انہوں نے اس پوائنٹ پہ صرف تھوڑا سا وقت ہی گزارا تھا

لیکن وہاں انہوں نے جو دیکھا اس نے سائنٹیفک کمیونٹی کو ہلا کر رکھ دیا سمندر کی سطح سے 11 ہزار میٹر نیچے وہ زندہ مچھلی کی ایک قسم سنیل فش کہتے ہیں دیکھ کر حیران رہ گئے آپ کو یہاں بتاتے چلیں کہ چیلنجر ڈیپ اتنا گہرا ہے کہ اگر ماؤنٹ ایورسٹ کو بھی وہاں رکھ دیا جائے پھر بھی اس کی بیک سمندر کی سطح سے دو کلومیٹر اندر ہی ہوگی یہاں پانی کا پریشر قریب زیادہ ہوتا ہے یعنی صرف ایک اسکوائر اس ایریا پر پڑنے والا وزن 7250 kg خیر وقت کی کمی کی وجہ سے ان کو چیلنجر ٹیم سے فورا نکلنا پڑا

Efficient Use of Energy

Energy conservation is crucial in the deep ocean, where resources are limited. Snailfish have evolved to be slow-moving and deliberate in their actions, using their energy conservatively. This adaptation allows them to maximize their chances of survival and minimize the need for frequent food consumption.

Bioluminescence

In the pitch-black environment of the abyssal zone, snailfish have developed the ability to produce bioluminescent light. This adaptation helps them communicate with each other, attract prey, and even potentially confuse predators. Their bioluminescence serves as a survival mechanism in the absence of natural light.

Conclusion

The snailfish’s survival in the deepest part of the ocean is a testament to the incredible adaptability of life to extreme environments. Through flexible bodies, efficient energy use, cold tolerance, and the ability to make the most of limited resources, these fish have carved out a niche in one of Earth’s harshest ecosystems. Their ability to thrive in the abyssal depths sheds light on the astounding diversity of life and the tenacity of organisms to overcome challenges, even in the most remote and inhospitable corners of our planet.