The Prince of Saudi Arabia who has been sleeping for 18 years and still hasn’t woken up

Advertisements

The Enigmatic Slumber: Prince Khalid bin Talal of Saudi Arabia

 

In the vast tapestry of history, certain stories and events captivate our imagination, defying the boundaries of reality and venturing into the realm of the extraordinary. One such enigmatic tale is that of Prince Khalid bin Talal of Saudi Arabia, a royal figure whose life took a tragic turn, rendering him a sleeping prince—a symbol of mystery and intrigue.

Advertisements

Prince Khalid bin Talal, a member of the Saudi Arabian royal family, embarked on a journey that transcended the ordinary trajectory of royal life. Born in 1966, he was part of the House of Saud, a dynasty renowned for its influence and power. Yet, it was not his royal lineage that thrust him into the spotlight; rather, it was a fateful event that occurred thousands of miles away from the opulent palaces of Saudi Arabia—a traffic accident in London in 2005.

 

Advertisements

 

The accident, which took place in the heart of London, was a turning point that would forever alter Prince Khalid’s life. Struck by the whims of fate, he fell into a deep coma, rendering him unconscious and non-responsive for years. The story of the “sleeping prince” emerged, capturing the attention of people across the globe and shrouding his life in an aura of mystery.

Prince Khalid’s journey into slumber was not only a personal tragedy but also a poignant symbol of the fragility of human existence and the unpredictability of destiny. A prince who once lived a life of privilege and influence was abruptly suspended in time, his reality transformed into a state of perpetual unconsciousness. This transformation was a stark reminder that even the most exalted individuals are not immune to the caprices of fate.

سعودی عرب کا وہ شہزادہ جو کہ 18 سال سےسو رہا ہے اور ابھی تک نہیں جاگا

 

دوستوں یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ سعودی عرب کا ہر چھوٹا بڑا شخص اتنا دولت مند ہے کہ اگر یہ اپنی زندگی میں کوئی کام بھی نہ کریں تو تب بھی ان کی نسلیں بیھٹے بٹھائے ایک عالی شان زندگی گزار سکتے ہیں لیکن جب انسان کی صحت ہی نہ ہو تو پیسہ بھی کسی کام کا نہیں رہتا اس بات کا اندازہ آپ کو آج کے اس ٹاپک سے ہو جائے گا اور دیکھنے کے بعد آپ کو اپنی زندگی سے جتنی بھی شکایات ہیں وہ سب دور ہو جائیں گی کیونکہ آج کی اس ویڈیو میں ہم آپ کے ساتھ سعودی عرب کے ایک ایسے خوبصورت نوجوان شہزادے کی کہانی شیئر کریں گے جسے سلیپنگ پرنس بھی کہا جاتا ہے دراصل یہ سعودی شہزادہ سن 2005 سے سو رہا ہے اور آج تک نہیں جاگا جبکہ سعودی شہزادے کا باپ دنیا کا دولت مند انسان ہونے کے باوجود بھی اتنا بے بس ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو آج تک نیند سے بیدار نہیں کر پایا تو آج ہم آپ کے ساتھ شیئر کریں گے کہ آخر یہ سعودی شہزادہ کون ہے اس کے ساتھ ایسا کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس نے اپنی زندگی کے آٹھ سال قومے میں گزار دیے ؟؟
اور اس کے علاوہ آپ کے ساتھ اس شہزارے کے باپ کا شہانہ لائف سٹائل بھی شیئر کیا جائے گا جسے جان کر آپ خود ہی اندازہ لگا سکیں گے کہ اس کا والد کتنا دولت مند انسان ہے یقینی طور پر اس دنیا میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو صرف اس وجہ سے احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں ایک دولت مند شخص بننا چاہتے ہیں اور وہ بن نہیں پا رہے جہاں اس وقت دنیا میں سعودی عرب کے کئی شہزادے پیسے میں کھیل رہے ہیں تو وہیں ان میں سے ایک سعودی شہزادہ خالد بن طلال بھی ہیں خالد بن طلال سعودی عرب کے ایک بہت بڑے دولت مند شخص کہلائے جاتے ہیں ان کی دولت کا اندازہ آپ کو اگے چل کر ہو ہی جائے گا لیکن پہلے بات کر لیتے ہیں ان کے نوجوان خوبصورت بیٹے ولید بن خالد طلال کی جسے آج قومے میں رہتے تقریبا 18 سال ہونے والے ہیں سعودی عرب کی رائل فیملی کے پاس آج دنیا کی ہر آسائش موجود ہیں دنیا کے بڑے سے بڑے ڈاکٹرز ہاسپٹلز اور بے تحاشہ دولت ہونے کے باوجود بھی اسی میں اتنی طاقت موجود نہیں ہے کہ وہ اس رائل
فیملی کے شہزادے کو نیند سے جگا سکے دراصل خالد بن طلال کے بیٹے ولید بن خالد طلال جب 16 برس کے ہوئے تو یہ سن 2005 میں لندن میں تعلیم حاصل کرنے چلے گئے ایک دن یہ اپنی مستی میں گم سپورٹس کار میں لندن کی سڑکوں پر سیر کر رہے تھے کہ ان کی گاڑی کا ایک بھیانک ایکسیڈنٹ ہو گیا جس میں ولید بن خالد طلال کے سر میں اتنی گہری چوٹیں آئیں کہ وہ موت سے پہلے ہی موت کی وادی میں چلے گئے۔

عام الفاظ میں اسے کوما کہا جاتا ہے لہذا ایکسیڈنٹ کے فورا بعد اسے سعودی عرب کے سب سے بڑے ریاض ہاسپٹل میں لے جایا گیا اور پھر تقریبا 10 سال تک یہ اسی ہسپتال میں داخل رہا لیکن 10 سالوں بعد جب ڈاکٹرز کی جانب سے ولید کو ہوش میں لانے کی تمام امیدیں دم توڑ گئی تو اس سعودی پرنس کو گھر منتقل کر دیا گیا اور یوں پوری رائل فیملی ہر وقت ولید کو دیکھ کر اندر ہی اندر روتی رہتی ہے ذرا سوچیں کہ اس شہزادے کے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر کیا گزرتی ہوگی جو اسے 18 سالوں سے سویا دیکھ رہے ہیں اس کی آنکھیں کھلنے اور اس سے بات کرنے کے لیے ترس گئے ہیں اس وقت سے لے کر آج تک یہ شہزادہ اپنے گھر وینٹیلیٹر پر ایک زندہ لاش کی صورت میں موجود ہے جبکہ اس کے علاج کے لیے دنیا کے سب سے بڑے چار ڈاکٹرز کو ہائر کیا گیا جن میں تین امریکی ڈاکٹرز اور ایک سپینش ڈاکٹر 24 گھنٹے اس کا علاج اور نگرانی کرتے رہتے ہیں ،لیکن پھر بھی وہ اس کی آنکھیں کھولنے میں اثج تک ناکام ہیں آج یہ سعودی پرنس زندہ تو ہے سانسیں لے رہا ہے جبکہ یہ اس دنیا میں جسمانی طور پر موجود بھی ہے لیکن 18 سالوں سے آج تک بدقسمتی سے یہ اپنی انکھیں نہیں کھول سکا اور سن 2005 سے لے کر آج تک مسلسل بیڈ پر بغیر کسی جسمانی حرکت کے لیٹا پڑا ہے اس لیے اسے سلیپنگ پرنس کا نام بھی دیا گیا ہے یعنی کہ سویا ہوا شہزادہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ پاک جنہیں عیش و آرام دیتا ہے وہیں انہیں دکھ بھی دیتا ہے جہاں ہر وقت خوشیاں منائی جاتی ہیں وہاں غم بھی منائے جاتے ہیں اس بھیانک حادثے کے وقت ولید بن خالد طلال کی عمر 16 سال تھی جبکہ آج بیڈ پر سوتے سوتے یہ 33 سے 34 سال کا ہو چکا ہے جبکہ سن 2005 سے لے کر سن 2023 تک شہزاد ولید نے صرف دو بار حرکت کی ہے، ایک بار اس نے اپنی بہن ریما بنت طلال کی آواز پر اپنے ہاتھ کی انگلیاں ہلا ئیں تھیں جس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی گئی تھی دوسری مرتبہ جب اس نے تھوڑا سا اپنا سر ہلایا تھا ان دنوں جسمانی حرکات کے باعث پوری رائل فیملی میں ایک شاندار جشن منایا گیا تھا کیونکہ اب سب کی امیدیں ایک بار پھر سے بحال ہونا شروع ہو گئی تھی جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اس شہزادے کی ویڈیوز وائرل ہوئی اور پوری دنیا نے اسے بے شمار دعائیں بھی دیں۔

لیکن سچ یہی ہے کہ اللہ کی مرضی کے آگے پوری دنیا بے بس ہے اور کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا اس رب کی کیا مرضی ہے وہ کیا چاہتا ہے یہ آزمائش کب تک رہے گی کوئی نہیں جانتا صرف وہی ایک دنیا اور جہان کا بادشاہ ہمارا اللہ ہی جانتا ہے یہ کہانی سننے کے بعد انسان کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے اس کہانی سے ایک بات صاف صاف سمجھ آتی ہے کہ انسان کے پاس ایسا شہرت بنگلہ گاڑی دنیا و جہان کی بے شمار نعمتیں ہو یا نا ہو انسان کے پاس اللہ ضرور ہونا چاہیے کیونکہ یہ پوری دنیا پل پل صرف ایک رب کی محتاج ہے اور ہمیشہ رہے گی لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس پیسہ شہرت بنگلہ گاڑی سب کچھ آگیا بس اب ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے بلکہ حقیقت میں ان سب چیزوں سے زیادہ ہمیں اللہ پاک کی ضرورت ہے کیونکہ صرف وہی ہے جو ہماری صحت اور بیماری کے فیصلے کرتا ہے یہ سب چیزیں عارضی ہیں جو اسی دنیا میں رہ جائیں گی جس انسان کو رب مل گیا تو سمجھ لیں کہ اس کو پوری دنیا مل گئی ۔
رائل فیملی ایک دولت مند شخص خالد بن طلال اور ان کے سگے بھائی ولید بن طلال کو آج پوری دنیا ان کے پیسے کی وجہ سے جانتی ہے اگر آپ ان کی دولت کا اندازہ لگانا چاہیں تو اس بات سے لگا لیں کہ ان کے باتھ روم کاٹوائلٹ بھی سونے کا بنا ہوا ہے خالد بن طلال کے آگے دنیا کے عرب پتی انسان بل گیٹس اور جیف بزاز جیسی شخصیات بھی چھوٹی دکھائی دینے لگتی ہیں جہاں پوری دنیا میں رولز رائس جیسی گاڑیاں خریدنے والا شخص خود کو دنیا کا امیر ترین انسان سمجھنے لگتا ہے تو وہیں خالد بن طلال رولز رائس جیسی گاڑی بھی دنیا کے مہنگے ترین ہیروں سے تیار کرواتے ہیں یہ دنیا کے ایک بہت بڑے بزنس مین بھی کہلائے جاتے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق خالد بن طلال کے پاس اس وقت دبئی کے کنگ شیخ محمد بن راشد سے بھی دو گنا زیادہ دولت موجود ہے۔
آج یہ اتنی زیادہ دولت اکٹھی کر چکے ہیں کہ اگر یہ ہر روز 15 کروڑ روپے سے بھی زیادہ رقم خرچ کریں تو تب بھی ان کو تقریبا 150 سال تک کا عرصہ لگ جائے گا اپنی ساری دولت ختم کرنے میں ان کی اتنی زیادہ دولت جمع کرنے کا راز انویسٹمنٹ ہے یہ اپنے پیسے سعودی شہزادوں کی طرح فضول چیزوں پر خرچ کرنے کی بجائے کئی نفع بخش جگہوں پر انویسٹ کرتے رہتے ہیں اسی طرح انکا پیسہ بڑھتا چلا گیا اور آج اس حد تک بڑھ چکا ہے جس سے گننا بھی ناممکن ہے اس کے علاوہ دنیا کے سب سے بڑے محلات اور ان میں رکھی گئی خالص سونے کی چیزیں اپنی مثال آپ ہیں لیکن اس سب کے باوجود بھی یہ دولت ان کے اپنے بیٹے کو نیند سے بیدار کرنے میں ذرا کام نہیں آئی آج ہم لوگ رائل فیملی کے ہیرو سے بھری ہوئی گاڑیاں بنگلے اور عالی شان محلات دیکھ کر ناشکری کرنے لگ جاتے ہیں اور یہی سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید ان لوگوں کو کسی قسم کا کوئی غم اور دکھ نہیں ہے یہ لوگ کتنی خوبصورت زندگی گزار رہے ہیں لیکن حقیقت میں ہم لوگ صرف ایسے لوگوں کے مسکرا تے ہوئے چہرے ہی دیکھ سکتے ہیں اندر سے ان کے دل کا کیا حال ہے ہمارا رب ہی جانتا ہے اس لیے ہر حال میں اپنے رب کا شکر ادا کریں۔

 

The details surrounding Prince Khalid’s condition and the accident that led to his coma remain shrouded in uncertainty. The circumstances that led to the accident, the extent of his injuries, and the medical interventions undertaken to revive him are largely confined to the realm of speculation. While reports and rumors abound, the true narrative of his story often eludes us, allowing the imagination to fill in the gaps with a blend of empathy and curiosity.

In the midst of this enigma, one cannot help but reflect on the implications of Prince Khalid’s slumber. The term “sleeping prince” evokes images of fairy tales and legends, where characters are suspended in time, awaiting a magical awakening. In reality, however, his condition is far from romantic—it serves as a stark reminder of the profound challenges that individuals with severe medical conditions and their families face.

The passage of time has not dimmed the fascination surrounding Prince Khalid’s story. As years turned into decades, his name continued to surface in conversations and news reports, a testament to the enduring intrigue of his plight. The public’s curiosity, intertwined with empathy, exemplifies the universal fascination with stories that defy the norms of everyday existence. It speaks to our shared humanity—a curiosity about the unknown and a yearning to comprehend the incomprehensible.

 

 

One cannot discuss Prince Khalid’s story without acknowledging the complex intersection of royalty, health, and public attention. The Saudi royal family, with its intricate web of power dynamics and traditions, has navigated this delicate terrain while safeguarding their privacy. The journey of a single prince resonates with broader themes of the monarchy’s place in the modern world, the impact of technological advancements on communication, and the delicate balance between tradition and progress.

In an age where information flows freely across borders and cultures, the story of Prince Khalid has transcended geographical limitations. His name has been whispered in various languages, and his story discussed in living rooms and digital forums alike. The power of his tale lies in its ability to bridge divides, sparking conversations among people who might otherwise have little in common. It serves as a reminder that even in a world marked by diversity, certain stories possess a universal quality that binds us together.

The “sleeping prince” narrative also raises questions about the nature of consciousness, the boundaries of medical science, and the mysteries that remain beyond our grasp. As medical technology advances, the frontiers of our understanding of the human brain expand. Yet, the case of Prince Khalid underscores that despite our progress, there are still facets of the mind that remain elusive, locked away in the recesses of our biology.

As we grapple with the complexities of Prince Khalid’s story, it’s important to remember that behind the headlines and intrigue lies a human being—a son, a brother, and a member of a family who has undoubtedly endured their own emotional journey. The human dimension of his story compels us to tread carefully in our discussions, acknowledging the ethical implications of exploring the personal lives of individuals who, by virtue of their circumstances, become symbols of broader narratives.

In the end, the tale of Prince Khalid bin Talal of Saudi Arabia is a reminder that reality often transcends fiction, weaving narratives that are simultaneously tragic and captivating. His slumber, a product of a fateful accident, has transformed him into an icon of mystery and wonder, drawing people into a story that defies easy explanation. As we grapple with the implications of his journey, we are reminded of the delicate balance between curiosity and empathy, and the power that stories have to unite us in our shared humanity.