Exploring the Controversial Claim: Noah’s Ark Found in Turkey?

Advertisements

Exploring the Controversial Claim: Noah’s Ark Found in Turkey?

 

The tale of Noah’s Ark, a foundational story in religious texts, has captivated minds for centuries. A claim that the ark has been found in Turkey has stirred both excitement and skepticism among scholars, researchers, and the general public. Let’s delve into this controversial claim and the evidence surrounding it.

Advertisements

The Claim

The assertion that Noah’s Ark has been discovered in Turkey has gained attention due to alleged findings on Mount Ararat. Proponents of this claim suggest that remnants of a massive wooden structure resembling the ark have been located at an altitude on the mountain. This has sparked debates about whether these findings are indeed the remains of the ark described in religious texts.

The Evidence

Evidence supporting the claim includes satellite images and ground expeditions that have reportedly identified anomalous shapes and structures on Mount Ararat. Some researchers believe that these findings align with the dimensions and description of Noah’s Ark as mentioned in historical accounts. Additionally, local legends and stories have added to the intrigue surrounding this potential discovery.

 

Advertisements

Skepticism and Challenges

Despite the excitement generated by these claims, skepticism persists within the scientific and archaeological communities. Critics argue that the evidence presented is inconclusive and that the natural processes on Mount Ararat could lead to the formation of such anomalies. The lack of definitive proof, such as identifiable remains or artifacts, has led many experts to remain cautious about accepting these claims.

 

 

پانچ ہزار سال پرانی حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ترکی سے مل گئی اندر سے ایسا کیا نکلا کہ جسے دیکھ کر ہر کوئی حیران رہ گیا

 

پانچ ہزار سال پرانی حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ترکی سے مل گئی اندر سے ایسا کیا نکلا کہ جسے دیکھ کر ہر کوئی حیران رہ گیا سوال یہ بھی ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اس کشتی کو دنیا سے چھپا کر کیوں رکھا قران مجید میں اللہ تعالی نے جن قوموں کا تذکرہ کیا ہے ان کے آثار اج بھی دنیا میں موجود ہیں ان قوموں کو اللہ تعالی نے ان کی نافرمانیوں خدا تعالی کی ذات سے انکار رسولوں نبیوں اور ان کے ماننے والوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دینے پر سخت عذاب دیے اور قران میں ہم مسلمانوں کی عبرت اور رہنمائی کے لیے ان کا تذکرہ کیا حضرت نوح علیہ السلام کو ثانی آدم بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آپ کے خاندان کے افراد اور اللہ کے حکم سے تیار کی گئی کشتی میں سوار جانوروں کے علاوہ ہر شے پانی میں غرق کر دی گئی تھی حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی پر اٹھ افراد سوار تھے حضرت نوح علیہ السلام آپ کی اہلیہ تین بیٹے اور باقی مختلف اقسام کے جانوروں کی جوڑیاں تھیں نوح علیہ السلام کا واقعہ سابقہ آسمانی کتاب تورات زبور اور انجیل میں بھی ملتا ہے

 

ایک عرصے سے سائنسدان حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی تلاش میں تھے غیر مسلم سائنسدان یہ سوال کرتے کہ اگر طوفان نوح آیا اور حضرت نوح علیہ السلام چند انسانوں اور دنیا کے تمام تر جانوروں کے جوڑے لے کر کشتی میں سوار ہوئے اور پانی کے بدترین عذاب سے بچ گئے تو آخر وہ کشتی کہاں گئی جن میں ان سب مخلوقات میں سفر کیا حال ہی میں چین کے عیسائی مبلغین اور سائنسدانوں کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے کئی ماہ پر مشتمل اپنی تحقیق کے اختتام کا اعلان کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی تاریخی کشتی کو تلاش کر لیا ہے یہ کشتی مشرقی ترکی میں واقعی کوہ ارارت پر ملی جس کی چوٹی کی بلندی 12 ہزار فٹ ہے ماہرین کی ٹیم کا کہنا تھا کہ اس کشتی کی تین منزلیں ہیں یہ کشتی کئی میٹر برف کے نیچے دبی ہوئی ہے

گزشتہ 200 برسوں سے ایک درجن سے زیادہ ٹیمیں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کو تلاش کر رہی تھی جن کے بارے میں قران پاک میں آتا ہے کہ وہ جوتی نامی پہاڑی کی چوٹی سے ٹکرا کر رک گئی تھی ناظرین چین کے ماہرین کی اس رپورٹ کو امریکی سائنسدانوں نے ماننے سے انکار کر دیا ان کا کہنا ہے وہ اتنے پرانے نہیں ہیں کہ ان کے بارے میں مخلوق سے کہا جا سکے کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کے دور کی کشتی ہے جبکہ چینی ماہرین کی ٹیم کا دعوی ہے کہ وہ 99 فیصد یقین رکھتے ہیں کہ یہ وہی کشتی ہے جو حضرت نوح علیہ السلام نے 48 س سال قبل اللہ کے حکم سے بنائی تھی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کشتی کی تین منزلیں ہیں اور اس میں کئی بڑے بڑے کمرے بھی ہیں اور ان کمروں میں لکڑی کی ستون ہیں عرب اخبارات نے بھی اس ضمن میں سوال اٹھائے تھے کہ کیا واقعی حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہے عرب اخبارات نے لکھا کہ چینی اور ترک عیسائی ماہرین نے اپنی تحقیق کے لیے قران کریم کی ان آیات کا بھی مطالعہ کیا تھا جس میں کشتی کے سفر کو بیان کیا گیا ماہرین کا کہنا ہے

کہ کشتی کے ٹھہرنے کے جس مقام کی نشاندہی کی گئی وہ کو کوہ عرارت کی طرف لے جاتی ہے گزشتہ 20 برسوں میں کئی سائنسدانوں نے کوہ قرارت کا دورہ کیا ان میں سے کچھ ایک نے پہاڑی پر بنی کشتی کی شکل کی چٹان کو ہی حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی قرار دے دیا لیکن چینی اور ترک ماہرین نے پہاڑ کے اس برفیلے مقام پر تحقیقات کی جہاں درجہ حرارت منفی 60 ڈگری ہوتا ہے اور پہاڑ کے جس حصے میں کشتی کی باقیات دریافت کی گئی وہ انتہائی ڈھلوان اور خطرناک ہے رپورٹ کے مطابق اس ٹیم نے 60 مختلف مقامات سے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا مشاہدہ کیا یہ کشتی کئی جگہوں سے ٹوٹی ہوئی ہے تاہم مکمل تباہ اس لیے نہیں ہوئی کہ یہ برف کی دبیز تہہ میں دبی ہوئی ہے کشتی ٹوٹی ہوئی ہونے کی وجہ سے ماہرین اس کے اندر جا سکے ناظرین گرامی چینی ماہر بین چین نے باضابطہ ایک پریس کانفرنس منعقد کر کے اپنی تحقیق سے اگاہ کیا کشتی کا معائنہ کرنے والے ایک چینی ماہر کا کہنا ہے کہ کشتی کا ہر کمرہ پانچ میٹر اونچا ہے اس میں کوئی بھی جانور اسانی سے سما سکتا ہے

چینی ماہرین نے ریڈیو کاربن ٹیکنالوجی سے کشتی کے ٹکڑوں کا مشاہدہ کیا اور دعوی کیا کہ یہ 4800 سال پرانی ہے کشتی میں کئی صندوق بھی ملے لیکن چینی ماہرین ان کو کھول نہیں پائے ماہرین ایک مرتبہ پھر سے جدید آلات اور ایکسرے مشینوں کے ذریعے کوہ ارارت کا تفصیلی دورہ کرنے والے ہیں تاکہ تمام رازوں سے پردہ ہٹانے کے علاوہ امریکی سائنسدانوں کے سوالات کا جواب دے سکے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی دریافت کرنے کا دعوی نیا نہیں ہے دوسری جنگ عظیم میں لیونارڈ نامی برطانوی فوجی لڑائی میں حصہ لینے عراق کیا تھا کیا تھا لیونارڈکو تاریخ اور اثار قدیمہ میں کافی دلچسپی تھی

اس لیے اس نے عراق کے بازاروں میں مختلف آزار قدیمہ کی اشیاء خریدنا اور جمع کرنا شروع کر دی جب وہ جل بسا تو اس کے بیٹے سائمن کے حصے میں یہ اشیاء آئیں اس نے یہ اشیاء برطانیہ کے میوزیم کے حوالے کر دی برٹش میوزیم سے وابستہ ماہر اثار قدیمہ کا معائنہ کیا ان اشیاء میں سے ایک تختی بھی ملی جس پر قدیم زبان میں کچھ لکھا تھا سخت مٹی سے بنی اس تختی پر لکھی عمارت کا جب انہوں نے ترجمہ کیا تو وہ حیران رہ گئے کیونکہ تختی پر درج تھا کہ جب انسانوں کے گناہ بڑھ گئے تو خدا ان سے ناراض ہو گیا اور پھر اس نے گنہگاروں کو پانی میں ڈبونے کا فیصلہ کیا تب فرشتوں نے وادی دجلہ اور فرات میں آباد ایک نیک انسان حضرت نوح علیہ السلام تک خدا کا یہ بیان پہنچایا کہ وہ ایک کشتی تیار کریں

اور اس میں نیک لوگوں کے علاوہ تمام جانداروں کا ایک ایک جوڑا بھی سوار کر لے اس تختی میں کشتی کو اتنا بڑا بتایا گیا کہ وہ فٹبال کے ایک سٹیڈیم کے برابر تھی ماہرین نے اندازہ لگایا کہ یہ تختی چار ہزار برس پرانی ہے یعنی حضرت عیسی علیہ السلام سے 20 برس پہلے کی ہے اس طرح طوفان نوح کا ایک اور ٹھوس ثبوت دنیا کے ہاتھ بہت پہلے ہی لگ چکا ہے عام طور پر مذہب خصوصا اسلام کے منکرین ان واقعات کو افسانوی قصے قرار دیتے ہیں یہ تمام ثبوت ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں اس تختی پر یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی آج کل کی کشتیوں کی طرح لمبی نہیں تھی بلکہ بیزوی یعنی انڈے نما تھی اس زمانے میں دجلہ اور فرات میں اسی طرز کی کشتیاں چلتی تھیں کشتی کے ٹھہرنے کے مقام کے بارے میں قران مجید کی سورۃ الہود کی آیت نمبر 44 میں بتایا گیا کہ وہ ایک بلند مقام جودی پر جا کر رکی تھی عراق اور شام کے قدیم باشندے بابل کے دور میں یہ سمجھتے تھے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کوہ گردہ پر ٹھہری تھی یہ مشہور پہاڑ جزیرہ ابن عمر کے قریب واقع ہیں

یہ مقام بھی اب ترکی کے حصے میں ہے تاہم عراق کی سرحد اس سے متصل ہے مسلم تاریخ دانوں نے کوہ کردہ کو بھی حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کے ٹھہراؤ کا مقام قرار دیا اسی لیے یہ پہاڑ مسلمانوں میں کوہ جوتی کے نام سے مشہور ہو گیا تاہم عیسائی مبلغین کا کہنا ہے کہ کشتی کوہ ارارت پر جا کر رکی تھی اور یہ پہاڑ ارمینیا اور ترکی کی سرحد پر ہے حضرت نوح علیہ السلام کو ثانی آدم کے علاوہ شیخ الانبیاء کا خطاب بھی دیا ہوا کیونکہ آپ وہ پہلے پیغمبر تھے جو انسانیت کی طرف بھیجے گئے قران پاک میں حضرت نوح علیہ السلام کا نام 73 مرتبہ آیا ہے ان کی عمر 92 تھی نبیوں میں اپ سب سے طویل العمر ہوئے حضرت نوح علیہ السلام موجودہ عراق میں اباد ایک قوم کے پاس نبی بنا کر بھیجے گئے تھے

جب بہت نصیحت کے باوجود بھی قوم نے سرکشی نہ چھوڑی تو اللہ تعالی سے آپ نے اپنی قوم کے لیے عذاب مانگا اللہ نے آپ کو ایک کشتی بنانے کا حکم دیا دو سال کی مدت میں کشتی تیار ہوئی جس کی لمبائی 300 گز اور چوڑائی 50 گز جبکہ اونچائی 30 گز تھی جب عذاب آیا تو اسمان سے مسلسل بارش ہونے لگی اور زمین سے چشمے ابلنے لگے ہر شے پانی میں غرق ہو گئی حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی چھ ماہ اٹھ دن پانی پر تیرتی رہی اور 10 محرم کو کوہ جوتی پر جا کر ٹھہر گئی کئی دن تک پانی اترتا رہا اس کے بعد جب خشکی پیدا ہوئی تو حضرت نوح علیہ السلام نے خسران شہر کو بسایا اور ایک مسجد بنائی جس کا نام سامانین تھا حضرت نوح علیہ السلام طوفان کے بعد صرف 60 برس زندہ رہے ان کا مزار آج بھی لبنان میں موجود ہے

 

Historical and Religious Significance

The potential discovery of Noah’s Ark holds immense historical and religious significance. If verified, it could provide insights into ancient civilizations, cultural beliefs, and the flood narrative that exists in various cultures. However, the sensitivity of the topic and its ties to religious beliefs also contribute to the controversy surrounding the claim.

 

The Quest for Answers

The pursuit of truth continues as researchers, archaeologists, and enthusiasts strive to uncover the reality behind the alleged discovery. Advanced technologies, including remote sensing and ground-penetrating radar, are being employed to investigate the anomalies on Mount Ararat. The ultimate goal is to determine whether the findings indeed correspond to the ark described in religious texts.

Conclusion

The assertion that Noah’s Ark has been found in Turkey remains a topic of debate and intrigue. While the claim has ignited excitement and generated discussions about history and faith, skepticism remains due to the lack of conclusive evidence. As research and exploration efforts continue, the truth behind this controversial claim may eventually come to light, shedding new insights on a timeless story that has captivated humanity for generations.